راحت اندوری کی ایک لاجواب غزل احباب کی نظر
یہ زندگی سوال تھی، جواب مانگنے لگے
فرشتے آ کے خواب میں حساب مانگنے لگے
اِدھر کِیا کرم کسی پہ، اور اُدھر جتا دیا
نماز پڑھ کے آۓ اور شراب مانگنے لگے
تجارتوں کا رنگ بھی عبادتوں میں آ گیا
سلام پھیرتے ہی ہم ثواب مانگنے لگے
میں جگنوؤں کو منہ لگا کے الجھنوں میں پڑ گیا
یہ بے وقوف مجھ سے آفتاب مانگنے لگے
سخنوروں نے خود بنا دیا سخن کو اک مذاق
ذرا سی داد کیا ملی، خطاب مانگنے لگے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment